حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت قربانی کا شرعی حکم

Mazhbi Safar
1


"حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت  قربانی کا شرعی حکم"


  •  قربانی: ایثار و اطاعت کی ایک لازوال روایت، قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں
  •   قربانی کے جانوروں کا ذکر قرآن مجید میں
  •  قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ کا حصول
  •   قربانی کی فضیلت احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی 

عید الاضحیٰ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جانور قربان کرنے کا مقدس تہوار ہے۔ یہ محض ایک رسم نہیں، بلکہ ایثار، قربانی اور اللہ کے حکم پر کامل تسلیم و رضا کا اظہار ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس عمل کی فضیلت اور اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔


قرآنی آیات کی روشنی میں
"قرآنی آیات"


قرآنی آیات:


قرآن پاک میں سورۃ الکوثر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:


{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}

(بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا فرمایا۔ پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔) (الکوثر: 1-2)


اس مختصر مگر جامع آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے قربانی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔


اسی طرح سورۃ الحج میں قربانی کے جانوروں کے بارے میں ارشاد ہے:


{وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ

 فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا

 اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ

 جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُو

ا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ

 لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ * لَنْ يَنَالَ

 اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ

 التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ

 سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا

 هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ}

(اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا ہے، ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔ پس ان پر اللہ کا نام لو جب وہ قطار باندھے کھڑے ہوں، پھر جب وہ اپنے پہلوؤں پر گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور سوال کرنے والے مسکینوں کو کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو۔) (الحج: 36-37)


ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور اللہ کی نشانیاں ہیں جن میں خیر و برکت ہے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ کا حصول ہے، نہ کہ صرف گوشت اور خون۔


احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
"احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں "


احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:


حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔" انہوں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اس میں ہمارے لیے کیا اجر ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔" انہوں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اون میں بھی؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ہے۔" (سنن ابن ماجہ)


اس حدیث سے قربانی کی فضیلت اور اس کے اجر و ثواب کا اندازہ ہوتا ہے۔


ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


 "یوم النحر (قربانی کے دن) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام قبولیت حاصل کر لیتا ہے، پس تم خوش دلی سے قربانی کرو۔" (سنن الترمذی)


یہ حدیث قربانی کی فوری قبولیت اور اس کے عظیم اجر کو بیان کرتی ہے۔


تاریخی واقعات:


قربانی کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا واقعہ مذکور ہے، جہاں انہوں نے اللہ کی راہ میں قربانی پیش کی تھی۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی جبکہ قابیل کی قربانی رد کر دی گئی۔ اس واقعے سے قربانی کی قبولیت کے لیے اخلاص اور تقویٰ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔


سب سے اہم واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، تو انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو قربان گاہ کی طرف لے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے خلوص اور اطاعت کو دیکھ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا اور اس طرح یہ قربانی قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے لیے ایک سنت بن گئی۔ یہ واقعہ قربانی کی روح، یعنی اللہ کے حکم پر بے چون و چرا عمل کرنے اور اپنی عزیز ترین چیز بھی اس کی راہ میں قربان کرنے کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔


قربانی کے جانور اور ان میں شرکت کا شرعی حکم:


بکری اور بھیڑ: شرعی طور پر، ایک بکری یا ایک بھیڑ صرف ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کی جا سکتی ہے۔ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جمہور علماء کے نزدیک ایک مسلمہ اصول ہے۔ ایک فرد اپنی طرف سے ایک بکری یا بھیڑ ذبح کر سکتا ہے اور اس قربانی کا ثواب اسے اور اس کے اہل خانہ کو حاصل ہوتا ہے۔ کسی دوسرے شخص کو اس میں شریک کرنا جائز نہیں ہے۔

قربانی کے جانور اور ان میں شرکت کا شرعی حکم
"بھیڑ"


گائے، بیل اور اونٹ: بڑے جانور جیسے گائے، بیل اور اونٹ میں ایک سے زائد افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ فقہی اصولوں کے مطابق، ان جانوروں میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام شرکاء کی نیت قربانی کی ہو اور کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو۔ اگر کسی ایک شریک کی نیت قربانی کے علاوہ کچھ اور ہو (مثلاً صرف گوشت حاصل کرنا)، تو باقی شرکاء کی قربانی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے تمام شرکاء کا خالص نیت کے ساتھ شریک ہونا ضروری ہے۔


خلاصہ:


عید الاضحیٰ کی قربانی ایک عظیم عبادت ہے جس کی جڑیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں پیوست ہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی فضیلت اور اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ بکری یا بھیڑ ایک شخص کی طرف سے قربان کی جاتی ہے، جبکہ بڑے جانوروں میں سات افراد تک شریک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس سنت ابراہیمی کو اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ ادا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائےـ

۔

Post a Comment

1Comments
Post a Comment

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !