عید الاضحیٰ: قربانی کا مکمل طریقہ اور شرعی احکام (ایامِ قربانی کی فضیلت کے ساتھ)
عید الاضحیٰ، جسے اسلامی دنیا میں "قربانی کی عید" کے نام سے جانا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے، جس میں اطاعت، ایثار اور اللہ پر مکمل بھروسے کا درس پنہاں ہے۔ قربانی کا عمل صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس میں گہری روحانی حکمتیں اور شرعی احکامات بھی پوشیدہ ہیں۔ اس مضمون میں ہم قربانی کے مکمل طریقے اور اس سے متعلق شرعی مسائل کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
1. قربانی کی شرعی حیثیت اور نیت کی اہمیت
قربانی سنت ابراہیمی ہے اور شریعت اسلامیہ میں اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہ ہر اس مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے جو صاحبِ استطاعت ہو، یعنی جس کے پاس عید الاضحیٰ کے ایام میں اپنی بنیادی ضروریات اور قرض سے زائد نصاب کے برابر مال موجود ہو۔
نیت: قربانی کے لیے سب سے اہم چیز نیت کی درستگی ہے۔ قربانی صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہونی چاہیے، نہ کہ ریاکاری یا دنیاوی دکھاوے کے لیے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ" (الحج: 37)
"اللہ کو نہ ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔"
2. قربانی کے جانور اور ان کی شرائط
قربانی کے لیے مخصوص جانوروں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کی کچھ شرائط ہوتی ہیں:
جانور کی اقسام:
اونٹ، گائے، بھینس: ان جانوروں میں زیادہ سے زیادہ 7 افراد شریک ہو سکتے ہیں۔
بھیڑ، بکری، دنبہ: یہ جانور صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کیے جا سکتے ہیں۔
جانور کی عمر:
اونٹ: کم از کم 5 سال کا ہو۔
گائے، بھینس: کم از کم 2 سال کی ہو۔
بھیڑ، بکری، دنبہ: کم از کم 1 سال کا ہو، سوائے دنبے کے، جو 6 ماہ کا ہو لیکن صحت اور جسامت میں ایک سال کے دنبے کے برابر نظر آئے۔
جانور کا عیب سے پاک ہونا: قربانی کے جانور کا جسمانی عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے۔
ناجائز عیوب: وہ جانور جس کا ایک تہائی یا اس سے زیادہ کان کٹا ہوا ہو، ایک تہائی یا اس سے زیادہ دم کٹی ہوئی ہو، اندھا ہو، لنگڑا ہو (جو ذبح ہونے کی جگہ تک نہ جا سکے)، اتنا بیمار ہو کہ بیماری ظاہر ہو، دانت نہ ہوں (جو چارہ نہ کھا سکے)، ناقص العقل ہو (دیوانہ ہو)، یا لاغر و کمزور ہو (جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو) اس کی قربانی جائز نہیں۔
جائز عیوب: چھوٹے موٹے عیوب جیسے کان میں معمولی شگاف، سینگ کا ٹوٹا ہونا (اگر جڑ سے نہ ٹوٹا ہو)، یا پیدائشی طور پر سینگ نہ ہونا، ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔
3. قربانی کا وقت اور طریقہ
وقت: قربانی عید الاضحیٰ کے دن نماز عید کے بعد سے لے کر ذوالحجہ کی 12 تاریخ کے غروب آفتاب تک کی جا سکتی ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک 13 ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک بھی قربانی کا وقت رہتا ہے، تاہم احتیاط 12 ذوالحجہ تک ہے۔ شہروں اور بڑے قصبوں میں نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں، دیہات میں صبح صادق کے بعد جائز ہے۔
طریقہ ذبح:
نیت: جانور کو قبلہ رخ لٹا کر یہ نیت کی جائے کہ یہ قربانی صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔
دعا: ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے:
"إنّیِ وَجَّھْتُ وَجْھَیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ إنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ اَکْبَرُ۔"
(مفہوم: میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں سے پہلا ہوں۔ اے اللہ! یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اللہ سب سے بڑا ہے۔) اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو صرف "بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ" کہہ کر ذبح کیا جا سکتا ہے۔
تیز دھار آلہ: جانور کو تیز دھار آلے سے ذبح کیا جائے تاکہ اسے کم سے کم تکلیف ہو۔ چھری جانور کے سامنے تیز نہ کریں۔
رگوں کا کٹنا: ذبح کرتے وقت چاروں رگیں (حلقوم، مری اور خون کی دو رگیں) کاٹنا ضروری ہے۔ یہ تمام رگیں ایک ہی بار میں کٹ جائیں تاکہ جانور کی جان آسانی سے نکلے اور خون کا اخراج مکمل ہو۔
4. قربانی کے گوشت کی تقسیم اور اس کے احکام
قربانی کا گوشت تقسیم کرنا ایک اہم شرعی حکم ہے:
تین حصوں میں تقسیم: افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے۔
ایک حصہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے: جو ضرورت مند ہیں اور قربانی نہیں کر سکتے۔
ایک حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے: جو صاحب استطاعت بھی ہوں ان کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
ایک حصہ اپنے گھر کے لیے: اپنے استعمال کے لیے رکھا جائے۔
فروخت کرنا: قربانی کا گوشت، کھال، اور جانور کا کوئی بھی حصہ فروخت کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ اللہ کی رضا کے لیے قربان کیا گیا ہے۔ اگر فروخت کر دیا جائے تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔
قصائی کی اجرت: قصائی کو قربانی کے گوشت یا کھال میں سے اجرت دینا جائز نہیں، بلکہ اس کی اجرت الگ سے ادا کی جائے۔
5. قربانی کے ایام اور فضیلت
قربانی کے ایام ذوالحجہ کی 10، 11، اور 12 تاریخ ہیں (اور بعض فقہاء کے نزدیک 13 ذوالحجہ بھی شامل ہے)۔ ان ایام میں قربانی کا اپنا الگ اجر ہے۔
پہلا دن (10 ذوالحجہ - عید کا دن):
افضلیت: احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال سے ثابت ہے کہ قربانی کے تینوں دنوں میں پہلے دن قربانی کرنا سب سے افضل ہے۔ یہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں جلدی کرنے اور نیکی میں سبقت لے جانے کے مترادف ہے۔
اجر: اس دن کی قربانی کو سب سے زیادہ ثواب کا باعث قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ ایام نحر (قربانی کے دنوں) کا آغاز اور سب سے اہم دن ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ "یوم النحر (دس ذوالحجہ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایام میں سب سے بڑا دن ہے" (ابوداؤد)۔
دوسرا دن (11 ذوالحجہ - ایامِ تشریق کا پہلا دن):
اجر: پہلے دن کے بعد دوسرے دن قربانی کرنے کا بھی بڑا اجر ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے دن کسی مجبوری کی وجہ سے قربانی نہ کر سکے تو دوسرے دن کرنا بھی مکمل اجر کا باعث ہے۔ اس دن بھی نیکی میں سبقت کی ترغیب دی جاتی ہے۔
تیسرا دن (12 ذوالحجہ - ایامِ تشریق کا دوسرا دن):
اجر: تیسرے دن بھی قربانی جائز ہے اور اس کا بھی اجر ہے۔ یہ قربانی کا آخری وقت ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے دو دن قربانی نہ کر پائے، تو تیسرے دن قربانی ادا کر سکتا ہے۔ تاہم، پہلے دن کے مقابلے میں اس کا اجر کم ہوتا ہے، مگر قربانی کا فریضہ ادا ہو جاتا ہے۔
امام شافعی کا مؤقف: امام شافعیؒ اور بعض دیگر فقہاء کرام کے نزدیک 13 ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک بھی قربانی کا وقت رہتا ہے۔ تاہم، احناف کے نزدیک 12 ذوالحجہ کو غروب آفتاب پر وقت ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ جس دن بھی قربانی کی جائے، اگر وہ شرعی وقت کے اندر ہو تو قربانی ادا ہو جاتی ہے اور اس کا ثواب ملتا ہے۔ البتہ، افضل اور زیادہ ثواب کی نیت سے پہلے دن قربانی کرنا ہی بہتر ہے۔
6. قربانی سے متعلق دیگر اہم مسائل
بھینس کی قربانی: اکثر فقہاء کرام کے نزدیک بھینس کی قربانی گائے کے حکم میں ہے اور جائز ہے۔
عقیقہ اور قربانی: عید الاضحیٰ کے موقع پر عقیقہ بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ قربانی کے حصوں میں شامل ہو سکتا ہے۔
میت کی طرف سے قربانی: میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس نے وصیت کی ہو یا کوئی شخص اپنی طرف سے ایصالِ ثواب کے لیے کرے۔
قربانی کے جانور کے حقوق: قربانی سے پہلے جانور کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسے کھلانا پلانا اور ذبح کرتے وقت نرمی سے پیش آنا ضروری ہے۔
خلاصہ:
عید الاضحیٰ نہ صرف ایک تہوار ہے بلکہ یہ اطاعت، ایثار اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر کامل فرماں برداری کا سبق بھی ہے۔ قربانی کا صحیح طریقہ اور اس کے شرعی احکام جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ یہ عظیم عبادت سنت کے مطابق ادا ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جا سکے۔ اس عمل کے ذریعے ہم اپنے نفس کی پاکیزگی حاصل کرتے ہیں اور معاشرے میں بھائی چارے اور ہمدردی کو فروغ دیتے ہیں