"بنیان مرصوص: قرآنی مفہوم اور علامتی پہلو"
بنیان مرصوص:
کیا آپ نے کبھی قرآن پاک میں استعمال ہونے والی ایک ایسی اصطلاح کے بارے میں سوچا ہے جو ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر دیوار کی تصویر کشی کرتی ہے؟ بنیان مرصوص ایک ایسی ہی اصطلاح ہے۔ لیکن اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں؟ قرآنی تناظر میں اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کا استعاراتی مفہوم کیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کو جاننا بہت ضروری ہے تاکہ ہم اس اصطلاح کی گہرائی کو سمجھ سکیں۔
لغوی معنی
بنیان مرصوص کو سمجھنے کے لیے، ہمیں اس کے دو بنیادی اجزاء کو دیکھنا ہوگا:
بنیان:
عربی میں "بنیان" کا مطلب ہے _عمارت، دیوار، یا کوئی بھی تعمیر شدہ ڈھانچہ۔ یہ لفظ "بنی" سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بنانا یا تعمیر کرنا۔
مرصوص:
"مرصوص" کا مطلب ہے مضبوطی سے جڑا ہوا، ٹھوس، سیسہ پلایا ہوا، یا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست۔ یہ لفظ "رص" سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے جوڑنا یا پیوست کرنا۔
عربی زبان میں، "بنیان مرصوص" سے مراد ایک ایسی عمارت یا دیوار ہے جو انتہائی مضبوطی سے بنی ہو اور جس کے حصے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہوں۔ ان الفاظ کے ماخذ کو جاننا بھی ضروری ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، "بنیان" کا اشتقاق "بنی" سے ہے اور "مرصوص" کا اشتقاق "رص" سے ہے۔
![]() |
"قرآنی تناظر" |
قرآنی تناظر
یہ اصطلاح قرآن پاک کی سورۃ الصف کی آیت نمبر 4 میں استعمال ہوئی ہے:
"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ
صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ"
"بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بندی کر کے لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔"
قرآن پاک میں، یہ اصطلاح مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں صف بندی کر کے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے، اس طرح کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہوں۔
لیکن اس آیت کی اصل تفسیر کیا ہے؟
اور قرآن پاک میں بنیان مرصوص کا ذکر مسلمانوں کو کیا پیغام دیتا ہے؟
آیت بنیان مرصوص کی تفسیر میں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بندی کر کے لڑتے ہیں جیسے وہ ایک مضبوط اور ٹھوس دیوار ہوں۔ یہ تشبیہ اتحاد، مضبوطی اور نظم و ضبط کو ظاہر کرتی ہے۔
لیکن اس تشبیہ کا اصل مقصد کیا ہے؟
اس تشبیہ کا مقصد مسلمانوں کو یہ سمجھانا ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑتے وقت انہیں متحد، مضبوط اور منظم ہونا چاہیے۔ جس طرح ایک مضبوط دیوار کو توڑنا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح متحد اور منظم لوگوں کو بھی شکست دینا مشکل ہوتا ہے۔ یہ آیت مجاہدین کو صف بندی کی اہمیت بھی بتاتی ہے۔ انہیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مل کر لڑنا چاہیے تاکہ دشمن کو شکست دینا آسان نہ ہو۔
استعاراتی اور علامتی مفہوم
"بنیان مرصوص" صرف ایک لفظ نہیں ہے؛ یہ ایک استعارہ ہے جو مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز کی نمائندگی کرتا ہے جو انتہائی مضبوط، متحد اور ناقابل تسخیر ہو۔
لیکن اس استعارے کے مختلف پہلو کیا ہیں؟
اتحاد اور یکجہتی کی علامت: یہ اصطلاح اتحاد اور یکجہتی کی علامت ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ جب لوگ متحد ہوتے ہیں تو وہ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ابتدائی مسلمانوں نے، مختلف قبائل سے ہونے کے باوجود، اسلام کی خاطر متحد ہو کر ایک مضبوط قوت بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان اتحاد پیدا کیا اور انہیں ایک جسم کی مانند قرار دیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت کی، ایک دوسرے کی مدد کی اور اسلام کی سربلندی کے لیے مل کر جدوجہد کی۔
مضبوطی اور استحکام کی علامت: یہ مضبوطی اور استحکام کی علامت بھی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ ایک مضبوط بنیاد پر قائم چیز کو ہلانا مشکل ہوتا ہے۔
نظم و ضبط کی علامت: اس سے مراد نظم و ضبط اور تنظیم بھی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ ایک منظم گروہ زیادہ موثر ہوتا ہے۔
ناقابل تسخیر ہونے کی علامت: آخر میں، یہ ناقابل تسخیر ہونے کی علامت ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ ایک مضبوطی سے جڑی ہوئی چیز کو شکست دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ، بنیان مرصوص ایک طاقتور استعارہ ہے جو مسلمانوں کو اتحاد، مضبوطی، نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر ہونے کی اہمیت کی یاد دلاتا ہے۔ یہ اصطلاح آج بھی مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوتی ہے، خاص طور پر ان گروہوں یا اداروں کے لیے جو ان اقدار پر زور دیتے ہیں۔