شیر خدا کی پرو رش گاہ
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ عاطفت
- حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے سال گزارے
- حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اسلام کیوں قبول کیا
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی تربیت کیسے کی
- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی کے اہم واقعات
- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار
وہ صبح کتنی مبارک اور وہ گھڑی کتنی سعید تھی جب کائنات کے افضل ترین انسان، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ شفقت اس معصوم پر پڑی جس نے حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے گھر میں جنم لیا۔ یہ کوئی عام مولود نہ تھے، بلکہ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم تھے، وہ جلیل القدر صحابی جن کی شجاعت، علم اور فصاحت تا ابد مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا منبع ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری گئی ان کی ابتدائی زندگی ایک ایسے قالب میں ڈھلی جس نے انہیں وہ بے مثال جوہر بخشا جس کی تابانی تاریخ اسلام کے ہر ورق پر نمایاں ہے۔ یہ محض پرورش نہ تھی، بلکہ چشمہ نبوت سے سیرابی اور آغوش رسالت میں تربیت تھی، جس نے انہیں مستقبل کا وہ عظیم رہنما بنایا جو اسلام کے چوتھے خلیفہ اور شیر خدا کے لقب سے جانے گئے۔ آئیے، اس مقدس سفر کا آغاز کریں اور دیکھیں کہ کس طرح ان ابتدائی ایام نے اس عظیم شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ابتدائی زندگی اور اعلیٰ نسب:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت تقریباً 600 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا، قریش کے معزز سردار حضرت ابوطالب کے گھرانے میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ والد کی جانب سے عبدالمطلب بن ہاشم سے جا ملتا ہے، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی جدِ امجد ہیں۔ اس طرح، آپ رضی اللہ عنہ نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے، بلکہ ایک عالی نسب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرِ سرپرستی:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کم سنی کے دور میں مکہ مکرمہ میں ایک سخت قحط نازل ہوا۔ حضرت ابوطالب کثیر العیال ہونے کے سبب معاشی مشکلات کا شکار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حضرت ابوطالب کے بچوں کی کفالت کا ذمہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش کی براہ راست ذمہ داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی۔ یہ مشیت ایزدی تھی کہ ایک عظیم المرتبت شخصیت کی تربیت براہ راست خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ سایہ انجام پائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا بچپن اور جوانی کا ابتدائی حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس میں بسر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پایاں شفقت، گہری محبت اور بہترین تربیت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ آپ رضی اللہ عنہ ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے، آپ کی خدمت میں پیش پیش رہتے اور آپ کی حکمت آموز تعلیمات سے مستفید ہوتے۔
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سعادت مند افراد میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے دینِ اسلام کو قبول کیا۔ بعض معتبر روایات کے مطابق، آپ رضی اللہ عنہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہونے والے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً دس برس تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ حق پر فوری لبیک کہنا آپ رضی اللہ عنہ کے راسخ ایمان اور سچائی کی جستجو کا واضح ثبوت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لازوال محبت اور قربت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد و حساب محبت تھی۔ اسی طرح، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے۔ ہجرت کے نازک موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو خیرباد کہا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی امانتیں اہل مکہ کو واپس کرنے کے لیے اپنے بستر پر چھوڑ کر گئے۔ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کامل اعتماد اور گہری محبت کا روشن ثبوت ہے۔
غزوہ خیبر کے یادگار موقع پر جب مسلمانوں کو بظاہر فتح نصیب نہیں ہو رہی تھی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ
عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ
وَرَسُولُهُ" (صحیح بخاری و مسلم)
"کل میں یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔"
اگلے دن یہ بابرکت جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دستِ مبارک میں دیا گیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے مسلمانوں کو شاندار فتح سے ہمکنار فرمایا۔ اس تاریخی واقعے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے مثال فضیلت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر میں ان کے عظیم مقام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قرآنی اشارات اور اہل بیت کی فضیلت:
اگرچہ قرآن کریم میں براہ راست حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کی کوئی واضح آیت موجود نہیں ہے، تاہم متعدد ایسی آیات ہیں جن کی تفسیر میں اہل بیت اطہار کی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت مبارکہ خاص طور پر قابل ذکر ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ
الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
(سورۃ الاحزاب: 33)
"اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔"
اس آیت کریمہ میں اہل بیت کی طہارت اور پاکیزگی کا بیان ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل بیت کا ایک اہم رکن ہیں۔