"اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق"
![]() |
"اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق" |
انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی ایسی ہستی سے جڑنا چاہتا ہے جو اسے کائنات کی وسعتوں میں سہارا دے سکے، اس کی روح کو تسکین بخش سکے اور اسے زندگی کے مقصد سے روشناس کروا سکے۔ اسلام میں یہ گہرا تعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ استوار ہوتا ہے، جو تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے۔ یہ تعلق صرف چند رسمی عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر لمحے میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی رضا کی جستجو پر مبنی ہے۔ عبادات، ذکر، دعا اور تقویٰ وہ اہم ستون ہیں جن کے ذریعے ایک مومن اپنے رب کے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
عبادات: بندگی کا اظہار اور رب سے ملاقات
عبادت کا لغوی معنی ہے عاجزی اور فرماں برداری کرنا۔ اسلام میں عبادات سے مراد وہ مخصوص افعال اور ارکان ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیے ہیں، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ یہ عبادات محض جسمانی حرکات نہیں ہیں، بلکہ یہ بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک براہِ راست تعلق کا ذریعہ ہیں۔
"نماز"
معراج المومنین، یعنی نماز مومن کی روحانی عروج ہے۔ یہ دن میں پانچ مرتبہ ایک بندے کو اپنے خالق کے حضور پیش ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ نماز میں پڑھی جانے والی آیات اور دعائیں انسان کے دل کو پاکیزہ کرتی ہیں، اسے دنیاوی آلائشوں سے دور رکھتی ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا احساس جاگزیں کرتی ہیں۔ خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جانے والی نمازیں نہ صرف فرائض کی ادائیگی ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی اور اپنی حاجتیں بیان کرنے کا ایک حسین ذریعہ بھی ہیں۔
![]() |
"نماز مومن کی روحانی عروج ہے" |
"روزہ"
صبر و ضبط کا درس دیتا ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمان بھوک اور پیاس برداشت کر کے ان لوگوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں جو ہمیشہ سے محروم ہیں۔ روزہ نفس کو پاک کرتا ہے، خواہشات پر قابو پانے کی قوت بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ہر قسم کی برائی اور لغو باتوں سے اجتناب کرنا بھی روزے کا اہم حصہ ہے۔
"زکوٰۃ"
معاشرے میں معاشی توازن قائم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ مالدار مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے مال کا ایک مخصوص حصہ غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کریں۔ زکوٰۃ دینے سے دل کی صفائی ہوتی ہے، بخل اور کنجوسی جیسی بری صفات سے نجات ملتی ہے اور معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
"حج"
صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ یہ ایک عالمگیر عبادت ہے جس میں دنیا بھر سے مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔ حج انسان کو اپنی اصل کی طرف لوٹاتا ہے، تکبر اور غرور کو ختم کرتا ہے اور بھائی چارے اور مساوات کا درس دیتا ہے۔
یہ تمام عبادات اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ایک بندہ ان عبادات کو اخلاص اور توجہ کے ساتھ ادا کرتا ہے، تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
"ذکر: ہر لمحہ رب کی یاد"
ذکر کا مطلب ہے یاد کرنا۔ اسلام میں ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا، اس کی تسبیح و تحمید بیان کرنا اور اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ہے۔ ذکر صرف زبان سے ادا کیے جانے والے چند کلمات تک محدود نہیں، بلکہ یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مستغرق رہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کثرت سے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے:
"اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔"
(الاحزاب: 41)
ذکر کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً تسبیحات پڑھنا (سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر)، استغفار کرنا (استغفراللہ)، درود شریف پڑھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ ہر عمل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے اور جس میں اس کی یاد شامل ہو، ذکر کے مفہوم میں شامل ہے۔
ذکر کرنے سے انسان کا دل نورانی ہوتا ہے، وسوسے دور ہوتے ہیں اور اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔ یہ انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے اور نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ جو شخص کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد رکھتا ہے اور اس پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے
💞💞💞💞💞💞💞💞💞
ReplyDelete