"قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت"
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک مقدس اور روحانی رہنمائی کا ذریعہ ہے بلکہ اپنی ادبی خوبصورتی اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی ایک معجزہ ہے۔ قرآن کا اسلوب بیان، الفاظ کا چناؤ، جملوں کی ساخت اور معانی کی گہرائی اسے دنیا کی تمام ادبی تخلیقات سے ممتاز کرتی ہے۔فصاحت اور بلاغت کا مفہومفصاحت کے معنی ہیں کلام کا واضح، رواں اور بامعنی ہونا، جبکہ بلاغت سے مراد ہے کلام کا موقع اور مخاطب کے لحاظ سے مناسب اور مؤثر ہونا۔ قرآن مجید ان دونوں صفات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ اس کی آیات نہ صرف اپنے معانی میں گہری ہیں بلکہ اپنے الفاظ اور انداز بیان میں بھی انتہائی دلکش اور مؤثر ہیں۔قرآنی آیات کی ادبی خوبصورتیقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف موضوعات کو انتہائی مؤثر انداز میں بیان فرمایا ہے۔ کہیں وہ اپنی قدرت کے مناظر پیش کرتا ہے، کہیں وہ سابقہ اقوام کے قصص بیان کرتا ہے، کہیں وہ اخلاقی تعلیمات دیتا ہے اور کہیں وہ جنت اور جہنم کے احوال بیان کرتا ہے۔ ہر مقام پر اسلوب بیان ایسا منفرد اور دلنشین ہوتا ہے کہ قاری یا سامع پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔تشبیہات اور استعارات: قرآن مجید میں تشبیہات اور استعارات کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جو معانی کو واضح اور دلکش بناتے ہیں۔
![]() |
"اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب" |
" مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے"
"اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ
ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًىۙ
مَّثَلُهُمْ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ
وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ۭ لَا يَّقْدِرُوْنَ عَلٰى شَيْءٍ
مِّمَّا كَسَبُوْا ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ
الْكٰفِرِيْنَ" [البقرہ: 264]
"جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ہی کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، ان کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو اور وہ اسے بالکل صاف کر دے۔ وہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔"
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خرچ کرنے کی مثال بیان فرمائی ہے جو خرچ کرنے کے بعد احسان جتاتے ہیں یا تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اس مثال میں چٹان، مٹی اور بارش کے استعارے استعمال کرکے بات کو کس قدر واضح اور مؤثر انداز میں سمجھایا گیا ہے۔موسیقی اور آہنگ: قرآن مجید کی آیات میں ایک خاص قسم کا ترنم اور آہنگ پایا جاتا ہے جو سننے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ آہنگ نہ صرف تلاوت کو خوبصورت بناتا ہے بلکہ آیات کے معانی کو بھی دل میں اتار دیتا ہے۔ مثلاً سورۃ الرحمن کی یہ آیات دیکھیں:
"اَلرَّحْمٰنُۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَۙ خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ"
[الرحمن: 1-4]
ان آیات کا آہنگ اور الفاظ کی ترتیب کتنی دلکش اور مؤثر ہے۔ایجاز اور اختصار: قرآن مجید میں بعض مقامات پر بہت بڑے مفہوم کو چند مختصر جملوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ ایجاز بھی قرآن کی بلاغت کا ایک اہم پہلو ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ"
[البقرہ: 179]
"اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو، تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔"
![]() |
"جامع کتاب" |
اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قصاص کی حکمت اور اس کے عظیم فائدے کو کس قدر جامع انداز میں بیان فرما دیا ہے۔تکرار: قرآن مجید میں بعض مضامین کو مختلف انداز میں بار بار دہرایا گیا ہے تاکہ وہ ذہن نشین ہو جائیں۔ یہ تکرار بھی قرآن کی بلاغت کا حصہ ہے۔ مثلاً سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ سوال بار بار دہرایا ہے:
"فَبِاَيِّ اٰلَاۤءرَبِّكُمَا تُكَذِّبٰن
[الرحمن: 13]
"تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟"
یہ تکرار قاری اور سامع کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔قرآن کا چیلنجقرآن مجید اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس قدر بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اس جیسی ایک سورت بھی بنا کر لائیں۔
"وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا
فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ ۙ وَادْعُوْا
شُهَدَاۤءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ
صٰدِقِيْنَ"
[البقرہ: 23]
"اور اگر تمہیں اس (کتاب) کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے گواہوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔"
یہ چیلنج آج تک قائم ہے اور کوئی بھی انسان قرآن مجید کی مثل کوئی کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہو سکا ہے۔نتیجہ قرآن مجید بلا شبہ فصاحت و بلاغت کا ایک عظیم الشان نمونہ اور ایک ادبی معجزہ ہے۔ اس کی آیات اپنے معانی، الفاظ اور انداز بیان کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کے دلوں پر گہرا اثر کرتی ہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز رہتی دنیا تک قائم رہے گا اور انسانوں کو اس کی حقانیت کی گواہی دیتا رہے گا۔
Nice
ReplyDelete