" قرآنی قصص سے عبرتیں"
انبیاء کرام علیہم السلام اور سابقہ اقوام کے قصص سے حاصل ہونے والے سبق (قرآنی آیات کے ساتھ)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس کتاب ہے جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس میں صرف احکامات اور نصیحتیں ہی موجود نہیں ہیں بلکہ اس میں انبیاء کرام علیہم السلام اور سابقہ اقوام کے دلچسپ اور سبق آموز قصص بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان قصص کا مقصد محض تفریح طبع نہیں بلکہ ان میں ہمارے لیے زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی موجود ہے۔ اگر ہم ان واقعات پر غور و فکر کریں تو ہم بہت سی ایسی عبرتیں حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي
الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن
تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ
شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾
(یوسف: 111)
**ترجمہ:**
یقیناً ان کے قصوں میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ کوئی من گھڑت بات نہیں بلکہ یہ ان (کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والی قوم کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کا مطالعہ ہمیں صبر، استقامت، توکل علی اللہ اور حق پر ڈٹے رہنے کا درس دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی نافرمانیوں کے باوجود ساڑھے نو سو سال تک انہیں اللہ کی طرف بلایا اور جب قوم نے ان کی بات نہ مانی تو اللہ کے عذاب سے صرف ایمان لانے والے ہی بچے۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ
أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ
الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ﴾
(العنکبوت: 14)
*ترجمہ:*
اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس کم ہزار سال ٹھہرا رہا پھر ان کو طوفان نے پکڑ لیا درآنحالیکہ وہ ظالم تھے۔
اس قصے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق کی دعوت دینے میں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ہمیں توحید پرستی اور اللہ کی راہ میں ہر قربانی دینے کا جذبہ سکھاتی ہے۔ انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو یوں بیان فرماتے ہیں:
﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي
أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا
تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ
سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ﴾
(الصافات: 102)
*ترجمہ:*
پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوگیا تو اس نے کہا اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ کر گزریے، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
ان کا یہ عمل ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ کی رضا کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں صبر، برداشت اور معاف کرنے کا درس ملتا ہے۔ اپنے بھائیوں کی طرف سے حسد کا نشانہ بننے اور کنویں میں ڈال دیے جانے کے بعد بھی انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور جب اللہ نے انہیں عزت عطا کی تو انہوں نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس واقعے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
﴿قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ
لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾
(یوسف: 92)
ترجمہ:*
اس نے کہا آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ مشکل حالات میں بھی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور بدلہ لینے کی بجائے معاف کر دینا بہتر ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ فرعون کے ظلم و ستم اور بنی اسرائیل کی نجات کی داستان ہے۔ اس قصے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ظلم بالآخر مٹ جاتا ہے اور حق ہمیشہ غالب آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا
فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ
الْوَارِثِينَ﴾ (القصص: 5)
**ترجمہ:**
اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں کمزور کر دیے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں وارث بنائیں۔
ہمیں ظالم کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے اور مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے۔
اسی طرح سابقہ اقوام کے قصص میں بھی ہمارے لیے بہت سی عبرتیں پوشیدہ ہیں۔ قوم عاد اور قوم ثمود نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی اور تکبر کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں انہیں سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ قوم عاد کے بارے میں فرماتے ہیں:
﴿فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ
الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا
أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً
ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ﴾
(فصلت: 15)
**ترجمہ:**
تو عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔
اور قوم لوط کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ
مَّنضُودٍ﴾ (هود: 82)
*ترجمہ:*
پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس (بستی) کے اوپر کو نیچے کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پے در پے برسائے۔
ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور برے اعمال کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔
قرآنی قصص ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے اور اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے احکامات کی پیروی کی اور نیک اعمال کیے وہ آخرت میں جنت کے حقدار ہوں گے اور جنہوں نے نافرمانی کی وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ
أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ
النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ
الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾
(آل عمران: 185)
*ترجمہ:*
" ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے اور تمہیں تمہارے اجر پورے قیامت کے دن دیے جائیں گے۔ پس جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔"
مختصراً، قرآنی قصص ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں سے نیک اعمال اور اعلیٰ اخلاق سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور سابقہ اقوام کے انجام سے برے اعمال کے نتائج سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان قصص پر غور و فکر کریں اور ان سے حاصل ہونے والی عبرتوں کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں تاکہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔