" پاکستان میں توہین رسالت کا قانون"
- اسلامی فقہ اور توہین رسالت
- دفعہ 295-C
- توہین رسالت پر تنقید
- انسانی حقوق اور توہین رسالت
- مذہبی آزادی
- غلط استعمال توہین رسالت قانون
- اسلامی فقہ اور توہین رسالت
- دفعہ 295-C
- توہین رسالت پر تنقید
- انسانی حقوق اور توہین رسالت
- مذہبی آزادی
- غلط استعمال توہین رسالت قانون
قرآن پاک میں کسی شخص کی جانب سے بھول کر توہین رسالت کرنے کے بارے میں کوئی واضح اور مخصوص سزا بیان نہیں کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھول چوک اور نادانستہ طور پر کیے گئے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت 286 میں ارشاد ہے:
"رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا"
(اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر جائیں تو ہمیں نہ پکڑ۔)
یہ آیت اس اصولی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص بھول کر یا نادانستگی میں کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو شرعاً درست نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اس پر مؤاخذہ نہیں فرماتا۔
تاہم، یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ توہین رسالت ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ اگرچہ قرآن پاک میں بھول کر کی گئی توہین کے بارے میں کوئی مخصوص سزا مذکور نہیں ہے، لیکن اس کی سنگینی اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔
اسلامی فقہاء اور علماء اس معاملے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی بھول کر یا نادانستگی میں توہین کا مرتکب ہو جائے تو اس پر وہ سخت سزا لاگو نہیں ہوتی جو جان بوجھ کر توہین کرنے والے کے لیے ہے۔ تاہم، اس شخص کو اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین پاکستان کے تعزیرات قانون (Pakistan Penal Code) کے باب XV میں شامل ہیں، جو "مذہب سے متعلق جرائم" سے متعلق ہے۔ ان قوانین کا مقصد کسی بھی مذہب کی توہین کی روک تھام کرنا ہے، لیکن عموماً ان کا اطلاق اسلام اور خاص طور پر پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے معاملات میں زیادہ ہوتا ہے۔
اہم دفعات:
دفعہ 295: کسی بھی طبقے کے مذہب کی توہین کرنے کے ارادے سے عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا یا ناپاک کرنا۔ اس کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔
دفعہ 295-A: دانستہ اور بدنیتی پر مبنی ایسے اعمال جو کسی بھی طبقے کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کے ارادے سے کیے جائیں۔ اس کی سزا دس سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔
دفعہ 295-B: قرآن پاک کی بے حرمتی کرنا۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔
دفعہ 295-C: بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی توہین کرنا۔ اس کی سزا موت ہے، اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ فروری 1990 میں اس میں ترمیم کی گئی جس کے تحت سزائے موت لازمی قرار دی گئی۔ اس قانون کے تحت مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ایک مسلمان جج کی زیر صدارت ہوتی ہے۔
دفعہ 298: کسی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے کوئی لفظ کہنا، آواز نکالنا، اشارہ کرنا یا کوئی چیز دکھانا۔ اس کی سزا ایک سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔
دفعہ 298-A: مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس استعمال کرنا۔ اس کی سزا تین سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔
دفعہ 298-B: احمدیوں کی جانب سے بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لیے مخصوص القابات، اوصاف اور خطابات کا غلط استعمال کرنا۔ اس کی سزا تین سال تک قید اور جرمانہ ہے۔ یہ قانون 26 اپریل 1984 کو آرڈیننس XX کے ذریعے شامل کیا گیا۔
دفعہ 298-C: احمدیوں کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنا یا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا۔ اس کی سزا تین سال تک قید اور جرمانہ ہے۔ یہ قانون بھی 26 اپریل 1984 کو آرڈیننس XX کے ذریعے شامل کیا گیا۔
ان قوانین پر تنقید:
پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ:
1: ان قوانین کا غلط استعمال ذاتی دشمنیوں یا مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
2:صرف الزام لگنے پر ہی مشتعل ہجوم تشدد پر اتر آتے ہیں اور ملزمان کو اپنی صفائی کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔
3: بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق یہ قوانین آزادی اظہار رائے اور مذہبی آزادی کے منافی ہیں۔
4: کئی بے گناہ افراد ان قوانین کے تحت سزائیں بھگت چکے ہیں، اور بعض کو توہین رسالت کے الزامات کے بعد قتل بھی کر دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قوانین میں اصلاحات یا ان کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
حالیہ صورتحال:
اگست 2023 میں، مشرقی پاکستان میں ایک مسلم ہجوم نے عیسائی گرجا گھروں اور گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ دو عیسائی افراد پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد توہین رسالت کے قوانین ایک بار پھر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گئے۔
ستمبر 2024 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین کا بہت زیادہ غلط استعمال ہو رہا ہے، اور بہت سے مدعا علیہان بے بنیاد الزامات، طویل قانونی لڑائیوں اور ججوں پر مذہبی گروہوں کو ناراض کرنے سے بچنے کے دباؤ کی وجہ سے طویل عرصے تک قید میں رہتے ہیں۔
یہ قوانین پاکستان میں ایک انتہائی حساس اور متنازعہ موضوع ہیں، اور ان میں اصلاحات لانا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔
دوسری طرف، کچھ علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ توہین رسالت کی سنگینی کے پیش نظر، بھول چوک کا دعویٰ آسانی سے قابل قبول نہیں ہونا چاہیے، اور اس معاملے کی مکمل تحقیق و تفتیش کی جانی چاہیے۔
خلاصہ:
قرآن پاک میں بھول کر توہین رسالت کرنے کی کوئی مخصوص سزا بیان نہیں کی گئی ہے۔ عمومی اصول یہ ہے کہ بھول چوک معاف ہے۔ تاہم، توہین رسالت کی سنگینی اپنی جگہ برقرار رہتی ہے، اور اس معاملے میں علماء کی مختلف آراء موجود ہیں۔ کسی بھی صورت میں، اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کی مکمل تحقیق اور شرعی رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین موجود ہیں جن کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص بھول کر بھی ایسا فعل کر بیٹھے تو قانونی پیچیدگیاں پیش آ سکتی ہیں۔ اس لیے احتیاط اور سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔