"صفر کا مہینہ: کیا واقعی یہ منحوس ہے؟ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جامع جائزہ"
اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ "صفر" جیسے ہی شروع ہوتا ہے، بہت سے ذہنوں میں ایک سوال ابھرتا ہے: کیا یہ مہینہ واقعی منحوس ہے؟ ہمارے معاشرے میں ایک بڑا طبقہ صفر کے مہینے کو نحوست اور بدقسمتی سے جوڑتا ہے، اور اس دوران شادی بیاہ یا کسی نئے کام کے آغاز سے گریز کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ عقیدہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے؟ آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلام میں نحوست کا تصور: ایک بنیادی اصول
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو توحید اور اللہ پر کامل بھروسے کا درس دیتا ہے۔ توحید، جو اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم تمام خیر و شر کا منبع صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے، کوئی دن، مہینہ یا وقت اپنی ذات میں" منحوس" نہیں ہوتا۔ ہر دن، ہر مہینہ، اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے، اور کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔
یہ عقیدہ انسانی ذہن کو بے جا وسوسوں، توہمات اور خرافات سے آزادی دلاتا ہے۔ اگر ہم کسی وقت کو خود مختار طور پر منحوس سمجھیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر شک کرنے کے مترادف ہو گا، جو کہ ایمان کے منافی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو کوئی رد کرنے والا نہیں..." (یونس: 107)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ تمام نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے۔ اس لیے، کسی مہینے یا دن کو منحوس سمجھنا اس آیت کے مفہوم کے بھی خلاف ہے۔
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات: نحوست کی تردید
صفر کے مہینے کے بارے میں رائج غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کی احادیث ہمیں واضح رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ آپ ﷺ نے متعدد احادیث میں اس بات کو صاف کر دیا کہ زمان و مکان اپنی ذات میں کوئی اثر نہیں رکھتے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سمیت کئی مستند کتبِ حدیث میں یہ روایت موجود ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"لا عدویٰ ولا طیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر"
(نہ متعدی بیماری از خود لگتی ہے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ الو کی نحوست ہے، اور **نہ صفر کی نحوست ہے**۔)
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے چار چیزوں سے متعلق رائج باطل عقائد کو یکسر رد کیا۔
1. "لا عدویٰ"
یعنی بیماری بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتی۔
بیماری کا پھیلنا بھی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اگرچہ اسلام احتیاط کا حکم دیتا ہے (جیسا کہ بیمار کو صحت مند سے دور رہنے کا حکم) لیکن یہ اعتقاد کہ بیماری از خود کسی میں سرایت کر جاتی ہے، یہ غلط ہے۔
2. "ولا طیرۃ"
بدشگونی، خاص کر پرندوں کے اڑنے یا کسی خاص جانور کے راستے میں آنے سے بدشگونی لینا، بھی باطل قرار دیا گیا۔
3. "ولا ہامۃ"
دورِ جاہلیت میں "ہامہ" یعنی اُلو سے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ اگر اُلو کسی کے گھر پر بیٹھے تو اس گھر میں موت واقع ہو گی۔ اسلام نے اس وہم کو بھی ختم کیا۔
4. "ولا صفر"
اور اسی طرح، "صفر کے مہینے سے منسوب نحوست کے تصور کو بھی قطعی طور پر رد کر دیا گیا۔"
یہ حدیث اپنے الفاظ میں انتہائی جامع اور واضح ہے کہ صفر کا مہینہ کسی بھی طور پر منحوس نہیں۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی طرف سے ایک واضح اعلان تھا جو جاہلانہ رسومات اور توہمات کی جڑ کاٹتا ہے۔
دورِ جاہلیت کے عقائد اور اسلام کا پیغامِ آزادی
صفر کے مہینے سے متعلق نحوست کا تصور دراصل "دورِ جاہلیت (قبل از اسلام کا زمانہ)" کی باقیات میں سے ہے۔ اس زمانے میں عربوں میں مختلف قسم کے وہم اور توہم پرستی عام تھی۔ وہ چاند کے مہینوں کو بھی مختلف اچھے اور برے اثرات سے منسوب کرتے تھے۔ صفر کے بارے میں ان کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ اس مہینے میں وبائیں اور آفات زیادہ آتی ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھنے لگے اور اس میں سفر کرنے یا شادی بیاہ جیسے اہم کاموں سے پرہیز کرتے تھے۔
جب اسلام آیا، تو اس نے ان تمام باطل عقائد اور توہمات کا خاتمہ کیا جو اللہ پر کامل توکل کے منافی تھے۔ اسلام نے انسان کو ہر قسم کے وہم و گمان، جاہلانہ رسومات اور خرافات سے آزاد کیا، اور اسے صرف ایک اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کا درس دیا۔ اسلام نے یہ سکھایا کہ کامیابی اور ناکامی، خیر اور شر سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اور کوئی بھی دن، رات، مہینہ یا سال اپنی ذات میں نہ تو نفع کا باعث ہے اور نہ نقصان کا۔
صفر میں شادی بیاہ اور نئے کام کا آغاز: شرعی حکم
اس غلط فہمی کی وجہ سے بہت سے مسلمان صفر کے مہینے میں شادی بیاہ، نئے کاروبار کا آغاز، سفر، یا گھر کی بنیاد رکھنے جیسے اہم کاموں سے محض نحوست کے ڈر سے گریز کرتے ہیں۔ یہ عمل بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور شریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
اسلامی شریعت نے کسی بھی مہینے کو شادی یا دیگر حلال اور جائز کاموں کے لیے مخصوص یا ممنوع قرار نہیں دیا۔ اگر کوئی کام شرعی لحاظ سے جائز اور حلال ہے، تو اسے کسی بھی مہینے میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ کامیابی اور برکت کا تعلق اللہ پر توکل، نیک نیتی، اور حلال ذرائع سے حاصل کی گئی کوشش سے ہے، نہ کہ کسی مہینے یا اس کے بارے میں رائج کسی وہم سے۔
صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؓ کی سیرت میں ہمیں کہیں بھی صفر کے مہینے میں کوئی خاص احتیاط یا کسی کام سے رکنے کا عمل نہیں ملتا۔ ان کی زندگیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ ہر وقت اور ہر حالت میں اللہ پر توکل کرتے تھے اور اسی کے حکم کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے۔
صفر میں عبادات اور نیک اعمال: کوئی خاص فضیلت یا طریقہ نہیں
صفر کے مہینے کے لیے کوئی خاص عبادت یا دعا مخصوص نہیں ہے جو دیگر مہینوں سے مختلف ہو۔ جس طرح محرم، ربیع الاول یا دیگر مہینوں میں مسلمان اپنی روزمرہ کی عبادات (نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار، صدقہ و خیرات) جاری رکھتے ہیں، اسی طرح صفر میں بھی ان عبادات کو جاری رکھنا چاہیے۔
بعض لوگ اس مہینے میں خاص قسم کی دعائیں یا وظائف پڑھتے ہیں، یا خاص انداز میں صدقہ کرتے ہیں، اس خیال کے ساتھ کہ یہ انہیں صفر کی "نحوست" سے بچائے گا۔ یہ سب بدعات ہیں جن کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں۔ دین اسلام مکمل ہو چکا ہے اور اس میں کسی بھی نئی چیز کا اضافہ بدعت کہلاتا ہے، جس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ مردود ہے۔" (صحیح بخاری و مسلم)
لہٰذا، مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر مہینے میں اللہ تعالیٰ کی بندگی، نیک اعمال اور سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی پر توجہ دے، نہ کہ خود ساختہ رسومات اور توہمات پر۔
خلاصہ کلام
صفر کا مہینہ کسی بھی دوسرے مہینے کی طرح اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے۔ اس میں نحوست یا بدقسمتی کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ یہ محض ایک انسانی وہم اور جاہلانہ عقیدہ ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں بحیثیت مسلمان تمام قسم کی توہم پرستی اور خرافات سے دور رہ کر صرف اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنا چاہیے، اور اپنے تمام امور اس کے حکم کے مطابق انجام دینے چاہییں۔
حقیقی کامیابی، برکت اور سکون اللہ کی رضا اور اس کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے میں ہے۔ جب ایک مسلمان کا عقیدہ اللہ کی ذات پر پختہ ہو جاتا ہے، تو پھر اسے کسی مہینے، دن یا کسی اور چیز کی نحوست سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان غلط فہمیوں کو اپنے معاشرے سے دور کریں اور صحیح اسلامی تعلیمات کو عام کریں۔