غزوہ احد: ایک سبق آموز معرکہ
غزوہ احد اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور سبق آموز معرکہ ہے جو 3 ہجری بمطابق مارچ 625 عیسوی میں مدینہ منورہ کے قریب وادی احد میں پیش آیا۔ یہ جنگ قریش مکہ کی جانب سے مسلمانوں سے غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے اور ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے لڑی گئی۔ اگرچہ بظاہر یہ مسلمانوں کے لیے ایک مشکل اور جانی نقصان کا باعث بنی، لیکن اس میں مسلمانوں کے لیے کئی اہم اسباق پوشیدہ ہیں جو آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
![]() |
"اہم رہنمائی " |
"پس منظر:"
غزوہ بدر میں قریش کو عبرتناک شکست ہوئی تھی جس میں ان کے کئی سردار مارے گئے اور بہت سے قیدی بنے۔ اس شکست نے قریش کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور ان کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ ابو سفیان کی قیادت میں قریش نے بدر میں مارے جانے والوں کا بدلہ لینے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا۔ اس لشکر میں تقریباً تین ہزار جنگجو، دو سو گھڑسوار اور سات سو زرہ پوش شامل تھے۔ ان کے ساتھ عورتیں بھی تھیں جو اپنے مردوں کو جنگ پر اکساتی اور بزدلی سے روکتی تھیں۔
دوسری جانب، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی تیاریوں کی اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ کچھ صحابہ نے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی رائے دی، جبکہ نوجوان صحابہ کی اکثریت کا اصرار تھا کہ میدان میں نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے میدان میں نکلنے کا فیصلہ فرمایا۔
مسلمانوں کا لشکر تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا، جن میں سو گھڑسوار بھی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا، اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ راستے سے واپس لوٹ گیا، جس سے مسلمانوں کی تعداد مزید کم ہو گئی۔ اب صرف سات سو کے قریب جانثار صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان احد کی طرف روانہ ہوئے۔
"میدان جنگ اور حکمت عملی"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دامن میں ایک مناسب جگہ پر اپنا لشکر صف آرا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک اہم درے (پہاڑی راستے) پر متعین فرمایا اور انہیں سختی سے حکم دیا کہ کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں، خواہ فتح ہو یا شکست۔ اس درے کی اہمیت اس لیے تھی کہ اگر دشمن اس طرف سے پیچھے سے حملہ آور ہوتا تو مسلمانوں کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔
جنگ کا آغاز قریش کی طرف سے ہوا اور ابتدائی مرحلے میں مسلمانوں نے زبردست جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں قریش کے صفیں تتر بتر ہو گئیں۔ مسلمانوں نے ان پر شدید دباؤ ڈالا اور بہت سے مشرکین مارے گئے۔ فتح کے آثار نمایاں ہونے لگے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔
"مسلمانوں کی غلطی اور شکست"
یہیں پر مسلمانوں سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم کے باوجود، تیر اندازوں کی اکثریت نے یہ سمجھ کر کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور اب مال غنیمت جمع کیا جا رہا ہے، اپنی مقررہ جگہ چھوڑ دی۔ صرف چند تیر انداز اپنے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔
خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور قریش کے گھڑسوار دستے کی قیادت کر رہے تھے، نے اس غفلت کا فائدہ اٹھایا اور اپنے دستے کے ساتھ پیچھے سے حملہ آور ہو گئے۔ انہوں نے بے دفاع تیر اندازوں کو شہید کر دیا اور مسلمانوں کے عقب میں پہنچ کر ان پر کاری ضرب لگائی۔
اس اچانک حملے سے مسلمانوں کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ بہت سے مسلمان منتشر ہو گئے اور افراتفری کا عالم پیدا ہو گیا۔ دشمن نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سمیت ستر کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شہید ہوئے۔
"نتائج اور اسباق"
غزوہ احد بظاہر مسلمانوں کے لیے ایک شکست تھی، لیکن اس میں کئی اہم اسباق پوشیدہ ہیں:
![]() |
"اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" |
اطاعت رسول کی اہمیت: اس جنگ کا سب سے بڑا سبق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ تیر اندازوں کی نافرمانی کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ اس واقعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی صورتحال میں قائد کے حکم کی پابندی لازم ہے۔
جلد بازی اور غفلت کا نقصان: فتح کے آثار دیکھ کر جلد بازی کرنا اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنا مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ مال غنیمت جمع کرنے کی لالچ نے انہیں اپنی اہم پوزیشن چھوڑنے پر مجبور کیا جس کا نتیجہ ایک سنگین شکست کی صورت میں نکلا۔
دنیاوی لالچ سے اجتناب: اس جنگ میں مسلمانوں کو یہ سبق بھی ملا کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مال غنیمت کی حرص نے انہیں اپنی جانوں اور فتح سے محروم کر دیا۔
صبر اور استقامت کی ضرورت: شکست کے بعد بھی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو دوبارہ منظم کیا اور انہیں حوصلہ دیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مصائب اور مشکلات میں بھی ثابت قدم رہنا چاہیے۔
منافقین کا کردار: عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کا جنگ کے عین وقت پر لشکر سے واپس لوٹ جانا منافقین کے مذموم کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس واقعے سے مسلمانوں کو منافقین سے ہوشیار رہنے کا درس ملا-