"زکوٰۃ کے مصارف"
قرآنی کی روشنی میں زکوٰۃ:
اسلام کا ایک اہم رکن، ایک مالی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نظام بھی ہے جو معاشرے میں معاشی انصاف کو یقینی بناتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے، تاکہ اس کی تقسیم میں کوئی ابہام نہ رہے۔
![]() |
" قرآنی کی روشنی میں زکوٰۃ" |
یہ مصارف سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 میں بیان کیے گئے ہیں:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ
وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي
الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ
السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ
حَكِيمٌ
ترجمہ:
"صدقات (زکوٰۃ) تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور اس کے وصول کرنے والوں اور ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں (بے سروسامان) پر خرچ کرنے کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔" (التوبہ: 60)
اس آیت میں بیان کردہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف درج ذیل ہیں:
الفقراء (فقراء):
یہ وہ افراد ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات زندگی، جیسے خوراک، لباس اور رہائش، کو پورا کرنے کے لیے کافی مال نہیں رکھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
المساکین (مساکین):
یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر تو محنت مزدوری کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی آمدنی ان کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی عزت نفس کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کتراتے ہیں، لیکن درحقیقت انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
![]() |
"زکوٰۃ کے حقدار " |
العاملین علیہا (زکوٰۃ وصول کرنے والے):
یہ وہ افراد ہیں جنہیں زکوٰۃ جمع کرنے، اس کا حساب رکھنے اور اسے مستحقین تک پہنچانے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو زکوٰۃ کی تقسیم سے متعلق انتظامی امور انجام دیتے ہیں۔ ان افراد کی تنخواہیں اور دیگر متعلقہ اخراجات زکوٰۃ کے فنڈز سے ادا کیے جا سکتے ہیں۔
المؤلفة قلوبهم
اس مد میں وہ نئے مسلمان یا غیر مسلم شامل ہیں جن کی مالی مدد کرنے سے اسلام کی طرف ان کی رغبت بڑھنے کی امید ہو۔ اس کا مقصد اسلام کے پیغام کو پھیلانا اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنا ہے۔
فی الرقاب (گردنیں چھڑانے میں):
اس سے مراد غلاموں کو آزاد کرانا تھا۔ اگرچہ اب غلامی کا رواج ختم ہو چکا ہے، لیکن اس مد میں انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کی رہائی اور بحالی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی جا سکتی ہے۔
الغارمین (قرض دار):
یہ وہ لوگ ہیں جو جائز ضروریات کے لیے قرض میں مبتلا ہو گئے ہوں اور ان کے پاس اسے ادا کرنے کے لیے کافی رقم نہ ہو۔ زکوٰۃ کی رقم سے ان کے قرض کی ادائیگی میں مدد کی جا سکتی ہے۔
فی سبیل اللہ (اللہ کے راستے میں):
اس میں ہر وہ کام شامل ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، جیسے جہاد، دینی مدارس کا قیام، مساجد کی تعمیر، اور دیگر فلاحی کام۔ اس میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو دین کی تبلیغ اور اشاعت میں مصروف ہیں۔
ابن السبیل (مسافر):
یہ وہ مسافر ہیں جو اپنے سفر کے دوران مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی رقم سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے تاکہ وہ اپنے سفر کو جاری رکھ سکیں۔
اہم نکات:
زکوٰۃ کی رقم صرف انہی آٹھ مصارف میں خرچ کی جا سکتی ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔زکوٰۃ کی تقسیم میں ترجیح مستحق ترین افراد کو دی جانی چاہیے۔زکوٰۃ کی رقم کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی ایک اہم عبادت ہے اور اسے خلوص نیت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔زکوٰۃ کی صحیح تقسیم معاشرے میں معاشی انصاف کے قیام میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہم غربت کے خاتمے اور سماجی بہبود میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔