"گندم پر زکوٰۃ اور عشر"
اسلامی شریعت کیا کہتی ہے؟
اسلام میں زکوٰۃ مالی عبادت کا ایک اہم رکن ہے جو صاحبِ نصاب مسلمانوں پر فرض ہے۔ زکوٰۃ کا مقصد غرباء اور مستحقین کی مدد کرنا اور معاشرے میں معاشی توازن برقرار رکھنا ہے۔ زرعی پیداوار پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جسے "عشر" کہا جاتا ہے۔
عشر کیا ہے؟
عشر دراصل زرعی پیداوار پر ادا کی جانے والی زکوٰۃ ہے۔ اس کا لفظی مطلب دسواں حصہ ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس کی اہمیت اور ادائیگی کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔
![]() |
"قرآن مجید کی روشنی میں " |
قرآن مجید میں بیان:
قرآن مجید میں کئی مقامات پر زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کے مصارف کا ذکر موجود ہے۔ زرعی پیداوار پر زکوٰۃ کے حوالے سے سورۃ الانعام کی آیت نمبر 141 میں ارشاد ہے:
"وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ
مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ
وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ
مُتَشَابِهٍ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا
حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا
يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ"
ترجمہ:
"اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے بیلوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور بغیر بیلوں کے بھی اور کھجور اور کھیتی جس کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی اور جدا جدا بھی۔ جب وہ پھل دیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن وہ کٹیں تو ان کا حق (زکوٰۃ) ادا کرو اور حد سے نہ بڑھو بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فصلوں کے کٹنے کے دن ان کا حق (یعنی زکوٰۃ یا عشر) ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
گندم پر زکوٰۃ کا نصاب اور شرح:
گندم پر زکوٰۃ (عشر) اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ ایک خاص مقدار کو پہنچ جائے۔ اس مقدار کو "نصاب" کہتے ہیں۔ زرعی پیداوار کے لیے نصاب کی مقدار کے بارے میں مختلف آراء موجود ہیں، لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ
"پانچ وسق" ہے۔ ایک وسق تقریباً 653 کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔
![]() |
"گندم پر زکوٰۃ اور عشر |
زکوٰۃ کی شرح کا تعین آبپاشی کے طریقے پر منحصر ہے:
"اگر فصل قدرتی وسائل سے سیراب ہوتی ہو"
جیسے بارش یا نہر کا پانی جس میں کوئی خرچہ نہ آیا ہو، تو پیداوار کا "دسواں حصہ (10%)" زکوٰۃ کے طور پر ادا کیا جائے گا۔ اسے "عشر" کہتے ہیں۔
"اگر فصل مصنوعی وسائل سے سیراب ہوتی ہو"
جیسے ٹیوب ویل یا کنویں سے پانی نکالنے میں خرچہ آیا ہو، تو پیداوار کا" بیسواں حصہ (5%)" زکوٰۃ کے طور پر ادا کیا جائے گا۔ اسے "نصف عشر" کہتے ہیں۔
"اگر فصل جزوی طور پر قدرتی اور جزوی طور پر مصنوعی وسائل سے سیراب ہوتی ہو"
تو اس صورت میں علماء کی رائے مختلف ہے، لیکن احتیاطاً تناسب کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ بعض علماء اس صورت میں "ساڑھے سات فیصد (7.5%)" زکوٰۃ ادا کرنے کا کہتے ہیں۔
"خلاصہ"
اگر آپ کی گندم کی پیداوار نصاب (تقریباً 653 کلوگرام) یا اس سے زیادہ ہے، تو آپ پر اس کی زکوٰۃ (عشر) ادا کرنا فرض ہے۔ اگر آبپاشی قدرتی وسائل سے ہوئی ہے تو دسواں حصہ (10%) اور اگر مصنوعی وسائل سے ہوئی ہے تو بیسواں حصہ (5%) زکوٰۃ کے طور پر ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مال کی زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا کرنے اور اس کے اجر و ثواب کا مستحق بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Mashallah bhot achi post ha
ReplyDelete